اردو(لازمی)
لاہور بورڈ،2016
انٹر پارٹ.1
پہلاگروپ
وقت:20منٹ
(معروضی طرز)
کل نمبر:20
نوٹ: جوابی کاپی پر ہر سوال کے سامنے دئیے گئے دائروں میں سے درست جواب کے مطابق متعلقہ دائرہ کو مار کریا پین سے بھر دیجئے- ہرسوال کے D اورC,B,A چار ممکنہ جواب دئیے گئے ہیں- ایک سے زیادہ دائروں کو پر کرنے یا کاٹ کرپُر کرنے کی صورت میں مذکورہ جواب غلط تصور ہوگا-

اردو (لازمی)
لاہور بورڈ ، 2016

انٹر پارٹ –1
وقت 2:40 گھنٹے
(انشائی طرز )
گروپ 1
کل نمبر : 80

(حصہ اول)

2۔ (الف) درج زیل اشعار کی تشریح کیجیے ۔ نظم کا عنوان اور شاعر کا نام بھی لکھیئے :

گر یار کی مرضی ہوئی ، سر جوڑ کے بیٹھے گھر بار چھوڑایا تو وہیں چھوڑ کے بیٹھے
موڑا اُنھیں جدھر ،وہیں منہ موڑ کے بیٹھے گدڑی جو سلائی تو وہیں اوڑھ کہ بیٹھے
اور شال اوڑھائی تو شال میں خوش ہیں پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں

(ب) درج زیل اشعار کی تشریح کیجیے ۔ نظم کا عنوان اور شاعر کا نام بھی لکھیئے :

کچھ غلط بھی تو نہیں تھا،مرا تنہا ہونا آتش و آب کا ممکن نہیں ،یکجا ہونا
ایک نعمت بھی یہی ،ایک قیامت بھی یہی روح کا جاگنا  اور آنکھ کا، بینا ہونا
جو بُرائی تھی مرے نام سے منسوب ہوئی دوستو کتنا بُرا تھا مرا اچھا ہونا

(حصہ دوم)

3۔ سیاق و سباق کےحوالے سے کسی ایک جز کی تشریح کریں۔ کا عنوان اور مصنف کا نام بھی لکھیئے۔ (8،1،1)

(الف) ایک نہایت عاجز و مسکین غریب آدمی جو اپنے ساتھیوں کو محنت اور پرہزگاری اور بے لگاوایمانداری کی نظیر دیکھاتا ہے،اس شخص کا اس زمانے میں اس کے ملک اسکی قوم کی بھلائی پر بہت بڑا اثر پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اسکی زندگی کا طریقہ اور چال چلن گو معلوم نہیں ہوتا مگر اور شخصوں کی زندگی میں خفیہ خفیہ پھیل جاتا ہےاور آئندہ کی نسل کے لیے ایک عمدہ نظیر بن جاتا ہے۔ہرروز کے تجربے سے ےیہ بات معلوم ہوئی ہے کہ شخصی چال چلن میں یہ قوت ہے کہ دوسروں کی زندگی اور برتاؤ اور چال چلن پر نہایت قوئ اثر پیدا کرتا ہےاور حقیقت میں یہی ایک نہایت عمدہ عملی تعلیم ہے۔

(ب) اسے اپنے ابا پر غصہ آرہا تھا کہ آخر وہ اس برائے نام روشنی پر قناعت کیوں کرتے ہیں؟ مٹی کا تیل اسے روزانہ کیوں نہیں ملتا؟ جبکہ گلی کے نکڑ والے خوبصورت دو منزلہ گھر میں تمام رات بڑی بڑی لالٹینوں کی روشنی ہوتی رہتی ہے، لیکن  اسکا جھنجھلایا ہوا دماغ یہ سوچ نہ سکا کہ اگر تیل لڑنے بھڑنے سے ملنے بھی لگے تو اس مد کیلیئے دو پیسے روز کس کے گھر سے آئیں گےجبکہ اسکے باپ کو سخت محنت کی قیمت صرف اتنی ہی ملتی ہےکہ وہ جیے تو کہاں جینے کی بھوندڈی سی نقل اُتارتا رہے۔بلکل اسی طرح جیسے سیاہ طاق میں رکھا ہوا چراغ۔

4۔ درج زیل میں سے کسی ایک نصابی سبق کا خلاصہ لکھیئے۔اور مصنف کا نام بھی لکھیں۔
(الف) ادیب کی عزت
(ب) اور آنا گھر میں مرغیوں کا ۔ 1،9

 نصاب میں شامل " نظیر اکبر آبادی کی نظم "تسلیم و رضا " کا خلاصہ تحریر کریں۔ (5)

 دو تعلیم یافتہ نوجوانوں کے درمیان مہنگائی اور بے روزگاری کے موضوع پر مکالمہ تحریر کریں۔ 
 یا
ایک کرکٹ میچ کی رُداد تحریر کریں۔

7۔ ڈسپنسری کہ اجراء کیلیئے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کے نام درخواست تحریر کریں۔

8۔ درج ذیل عبارت کی تخلیص کیجیے :
فطری طور پر انسان ایسا واقع ہوا کہ دوسروں کہ سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوے ندامت محسوس کرتا ہے اور دوسروں کہ سامنے اپنے گناہ چھپاتا ہے لیکن جب انسان اللہ کی بارگاہ میں ہم کلام ہو تو وہ حقیقت سے کام لیتےہوے اپنے تمام گناہوں کا اعتراف کرتے ہوے اللہ تعالیٰ سے رحمت کا اُمیدوار ہوتا ہے۔ گناہ کرنا اسکی سرشت میں داخل ہوتا ہےلیکن وہ اسکی رحمت سے ہر گز بھی نااُمید نہیں ہوتا۔ وہ جانتا ہے کہ اللہ پاک تو ستر ماؤں سے زیادہ مشفق ہے وہ اسکی توبہ لازمی قبول کرےگا۔ اسلیئے جب انسان سچے دل سے اپنے گناہوں کا اعتراف کرے اور توبہ کرے تو خدا اسے معاف کر دیتا ہے۔

اردو(لازمی)
لاہور بورڈ،2016
انٹر پارٹ.1
دوسراگروپ
وقت:20منٹ
(معروضی طرز)
کل نمبر:20
نوٹ: جوابی کاپی پر ہر سوال کے سامنے دئیے گئے دائروں میں سے درست جواب کے مطابق متعلقہ دائرہ کو مار کریا پین سے بھر دیجئے- ہرسوال کے D اورC,B,A چار ممکنہ جواب دئیے گئے ہیں- ایک سے زیادہ دائروں کو پر کرنے یا کاٹ کرپُر کرنے کی صورت میں مذکورہ جواب غلط تصور ہوگا-

اردو (لازمی)
لاہور بورڈ ، 2016
انٹر پارٹ –1
وقت 2:40 گھنٹے
(انشائی طرز ) گروپ2
کل نمبر : 80

(حصہ اول)

2۔ (الف) درج زیل اشعار کی تشریح کیجیے ۔ نظم کا عنوان اور شاعر کا نام بھی لکھیئے :

کوئی دن جاتا ہے پیدا ہوگی اک دُنیا نئی خونِ مسلم صرف خونِ جہاں ہو جائے گا
بجلیاں غیرت کی تڑپیں گی فضائے قدس میں حق عیاں ہو جائے گا باطل نہاں ہو جائے گا

(ب) درج زیل اشعار کی تشریح کیجیے ۔ نظم کا عنوان اور شاعر کا نام بھی لکھیئے :

رسمِ جفا کامیاب ،دیکھیے کب تک رہے  حبِ وطن مست خواب دیکھئیے کب تک رہے
تابہ کجاں ہو ں دراز ،سلسلہ ہائے فریب ضبط کی لوگوں میں تاب کب تک رہے
پردہِ اصلاح میں کوششِ تخریب کا خلقِ خدا پر عذاب دیکھئے کب تک رہے،

(حصہ دوم)

3۔ سیاق و سباق کےحوالے سے کسی ایک جز کی تشریح کریں۔ کا عنوان اور مصنف کا نام بھی لکھیئے۔ 8،1،1

(الف) برسات کا حال تمہیں بہی معلوم ہے اور تم بھیجانتے ہوکہ میرا مکان گھر کا نہیں ہے، کرائے کی حویلی میں رہتا ہوں۔ جولائی سے مینہ شروع ہوا شہر میں سیکڑوں مکان گرے اور مینہ کی نئی صورت ، دن رات میں دو چار بار برسے اور ہر بار اس زور سے ندی نالےبہ نکلیں۔ بالا خانے کا جو دالان میرے بیٹھنے ، سونے جاگنے ، جینے مرنے کا محل ہے، اگرچہ اگر انہیں لیکن چھت چھلنی ہوگئی۔ کہیں لگن ، کہیں چلمچی ، کہیں اُگالدان رکھ دیا۔ قلم دان ، کتابیں اٹھا کر تو شے خانے کی کوٹھڑی میں رکھ دیے۔مالک مرمت کی ترف متوجہ نہیں ۔ کشتی نوح میں تین مہینے رہنے کا اتفاق ہوا۔ اب نجات ہوئی ہے۔
(ب) ظرافت اور خوشی طبعی ان کی جبلت میں داخل تھی مگر جس طرح ان کی اور باتوں میں بناوٹ نہ تھی اس طرح ظراففت اور خوشی طبعی میں مطلق تصنع نہ تھا۔تحریر میں ، تقریر میں ، بات چیت میں جو لطیفہ یا شوخی ان کو سوجھ جاتی تھی اگرچہ کیسی ہی شرم و حباب کی بات ہو، ان سے ضبط نہ ہو سکتی تھی مگر ہر اک امر کے بیان کرنے کا خدا نے ایسا سلیقہ دیا تھا ک کوئی بات تہذیب کی حد سے متجاوز نہ ہونے پائی تھی۔

4۔  کسی ایک نصابی سبق کا خلاصہ لکھیے اور مصنف کا نام بھی لکھیے:
(الف) اسوہ حسنہ ﷺ
(ب) سفارش

5۔  حفیظ جالندھری کی نظم " ہلال استقلال" کا خلاصہ تحریر کیجئے۔

6۔  دو دوستوں کے درمیان "بے روزگاری کے موضوع پر مکالمہ تحریر کیجیئے۔
یا
کالج میں منعقدہ "جلسہ تقسیمِ انعامات" کی تقریب کی روداد قلمبند کیجیئے۔

پوسٹ ماسٹر کے نام پارسل کم ہونے کی درخواست تحریر کیجیئے۔

8۔ درج ذیل عبارات کی تلخیص کیجیئے اور مناسب عنوان بھی تحریر کریں۔
دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جس میں کسی دوسری زبان کے الفاظ نہ پائے جاتے ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب دو قوموں میں ملاپ ہوتا ہے تو ان کی زبانیں بھی ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کے ذخیرے سے تھوڑے بہت الفاظ ضرور لیتی ہیں جو اپنے بیگانہ ماحول میں دخیل کہلاتے ہیں۔ ان کی اہمیت اس یے مسلم ہے کے یہ ہمیں دو قوموں  کے تعلقات اور ان کی نوعیت( مذہبی، سیاسی ، فوجی، سماجی وغیرہ) سے آگاہی بخشتے ہیں۔جو ماضی کے کسی عہد میں استوار ہوئے تھےاور یوں تاریخ ِ عالم کے ان گوشوں کو روشن کرتے ہیں جو ابھی پردہ تاریکی میں ہیں اور جن تک ہماری رسائی کے تمام وسائل ختم ہو چکے ہیں چناچہ اس اعتبار سے کہ ازمنہ قدیم کے حالات کا سراغ لگانے کے لیے زبان اور زبان کے الفاظ ہی ہمارا داحد دسیلہ اور آخری سہارا ہیں۔ دو قوموں کے ارتباط باہمی کے متعیلق معلومات حاصل کرنے کے لیے دخیل الفاظ کی قدر و قیمت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔