1 گروپ-
1 انٹر پارٹ- سرگودھا بورڈ2016ء
اردو(لازمی)
کل نمبر:20
(معروضی طرز)
وقت:30منٹدئیے گئے ہیں-جوابی کاپی پر ہر سوال کے سامنے دئیے گئے دائروں میں سے درست جواب کے مطابق متعلقہ دائرہ کو مار کریا پین سے بھر دیجئے-D اورC,B,Aنوٹ: ہرسوال کے چار ممکنہ جواب
ایک سے زیادہ دائروں کو پر کرنے یا کاٹ کرپُر کرنے کی صورت میں مذکورہ جواب غلط تصور ہوگا-
پہلاگروپ
1 انٹر پارٹ- سرگودھا بورڈ2016ء
ردو
(لازمی)
کل نمبر : 80
(انشائی)
وقت : 2.40 گھنٹہ
حصہ اول
2۔ (الف) درج ذیل اشعار کی تشریح کریں۔ نظم کا عنوان اور شاعر کا نام بھی لکھیں۔
گنوا دی ہم نے اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا ، کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارہ
(ب) درج ذیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں۔
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کس طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
حصہ دوم
3۔ درج ذیل اقتباسات میں سے کسی ایک کی تشریح بحوالہ سیاق و سباق کریں۔ سبق کا عنوان اور مصنف کا نام بھی لکھیں۔
(الف) غرض تم جو کئی بھی ہو اور جس حال میں بھی ہوتمھاری سیرت کے لیے نمونہ تمھاری سیرت کے لیے درستی و اصلاح کے لیے سامان تمھارے ظلمت خانہ کے لیے ہدایت کا چراغ اور رہنمائی کا نور محمد ﷺ کی جامعیت کبریٰ کے خزانے میں ہر وقت اور ہمہ دم مل سکتا ہے۔ اس لیے طبقہ ِ انسانی کے ہر طالب علم اور نورِ ایمانی کے ہر متلاشی کے لیے صرف رسول پاکﷺ کی سیرت ، ہدایت کا نمونہ اور نجات کا زریعہ ہے۔
(ب) ایک عام خوش فہمی جس میں تعلیم یافتہ اصحاب بالعموم اور اردو شعر اء بالخصوص عرصے سے مبتلا ہیں ۔ یہ ہے کہ مرغ صرف صبح آذان دیتے ہیں۔ اٹھارہ مہینے اپنی عادات و خصائل کا بغوار مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یا تو میں جان بوجھ کر عین اس وقت سوتا ہوں جو قدرت نے مرغ کے لیے آذان دینے کے لیے مقرر کیا ہے یا یہ ادہدا کر اس وقت آذان دیتا ہے جب خدا کے گناہگار بندے خؤابِ غفلت میں پڑے ہوں۔
4۔ درج ذیل اقتباسات میں سے کسی ایک نصابی سبق کا خلاصہ لکھیں اور مصنف کا نام بھی لکھیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں چھٹی ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ہمارے گاؤں میں اس وقت تک بجلی نہیں آئی تھی۔ گرمیوں کے دن تھے ۔ ہم سب بہن بھائی باپو اور ماں جی کے ساتھ پولیس لائین کی طرح کوٹھے پر چارپائیاں بچھا کر سویا کرتے تھے۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ مجھے ماں جی کے قریب والی چارپائی ملےتاکہ میں یا تو ان سے خوب باتیں کروں تو یا پھر ان سے چڑیا چڑے کی وہ کہانی سنوں جو وہ مجھے پہلے بھی بیسیوں بار سنا چکی تھیںمگر ہر بار ایک نیا لطف آتا تھا۔ اس دن چودھویں کی رات تھی، چاند اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا ۔ ماں جی چاند کی طرف اشارہ کرکے مجھ سے پوچھنے لگیں۔ " بیٹا کیا یہ ہوی چاند ہے جو پانی پت میں تھا ؟" میں نے بڑے وثوق سے جواب دیا ، " ہاں ما جی بالکل سارے دنیا کا ایک ہی چاند ہے" ماں جی کو شائد میری بات کا یقین نہ آیا کہنے لگیں ، " بیٹا میں تو ان پڑھ ہوں مگر تم تو پڑھتے ہو ، تم یوں کرنا کل اپنے ماسٹر جی سے پوچھ کر آنا، کیونکہ اس چاند میں وہ خنکی وہ روشنی نہیں ہے ، جو اس چاند میں تھی جو پانی پت میں نکلتا تھا"۔
2 گروپ-
1 انٹر پارٹ- سرگودھا بورڈ2016ء
اردو(لازمی)
کل نمبر:20
(معروضی طرز)
وقت:30منٹدئیے گئے ہیں-جوابی کاپی پر ہر سوال کے سامنے دئیے گئے دائروں میں سے درست جواب کے مطابق متعلقہ دائرہ کو مار کریا پین سے بھر دیجئے-D اورC,B,Aنوٹ: ہرسوال کے چار ممکنہ جواب
ایک سے زیادہ دائروں کو پر کرنے یا کاٹ کرپُر کرنے کی صورت میں مذکورہ جواب غلط تصور ہوگا-
2 گروپ-
1 انٹر پارٹ- سرگودھا بورڈ2016ء
اردو (لازمی)
کل نمبر : 80
(انشائی)
وقت : 2.40 گھنٹہ
حصہ اول
2۔ (الف) درج ذیل اشعار کی تشریح کریں۔ نظم کا عنوان اور شاعر کا نام بھی لکھیں۔
یہ مینہ کے قظرے مچل رہے ہیں، کہ ننھے سیارے مچل رہے ہیں
افق سے موتی ابل رہے ہیں ، گھؔٹائیں موتی لٹا رہی ہیں
نہیں ہے کچھ فرق بہر و بر میں ، کھنچا ہے نقشہ یہی نظر میں
کہ ساری دنیا ہے اک سمندر ، بہاریں جس میں نہا رہی ہیں
(ب) درج ذیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں۔
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
ہر زخم جگر داورِ محشر سے ہمارا
انصاف طلب ہے تیری بیدار گری کا
لے سانس بھی آہمستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا
حصہ دوم
3۔ درج ذیل اقتباسات میں سے کسی ایک کی تشریح بحوالہ سیاق و سباق کریں۔ سبق کا عنوان اور مصنف کا نام بھی لکھیں۔
(الف) یہ ہفتے کی شام تھی بھر پور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھات کی طرح جسم پر آ آ کے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اسکا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا، لوغ خود کو گرم کرنے کیلیے تیز تیز قدم اٹھا رہے تھے، مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی، جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں مزا آرہا ہو۔ اسکی چال ڈھال سے ایسا بانکچن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سر پٹ گھوڑا دعڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے۔
(ب) جو مکان بن چکے ہیںانہیں ڈھا دو اور آئیندہ کی ممانعت کا حکم سنا دو اور یہ بھی مشہور ہے کہ پانچ ہزار ٹکٹ چھاپے گئے ہیں جو مسلمان شہر میں اقامت چاہے بقدر مقدور نذرانہ دے ۔ اس کا اندازہ قرار دینا حاکم کی رائے پر ہے، روپیہ دے اور ٹکٹ لے۔ گھر برباد ہو جائے، آپ شہر میں آباد ہو جائے۔ آج تک یہ صورت ہے، دیکھیے شہر کے بسنے کی کونسی مہورت ہے۔
4۔ درج ذیل اقتباسات میں سے کسی ایک نصابی سبق کا خلاصہ لکھیں اور مصنف کا نام بھی لکھیں۔
1۔ سر سید کے اخلاق و خصائل
2۔ چراغ کی لو
5۔ حفیظ جالندھری کی نظم " ہلال ِ استقلال " کا خلاصہ تحریر کریں۔
6۔ دو طالب علموں کے درمیان " دہشت گردی" پر مکالمہ لکھیے۔
یا
کالج میں منعقد ہونیوالی سالانہ جلسہ تقسیم انعامات کی روداد تحریر کیجیے
7۔ تعلیمی چئیرمین بوڑد کے نام سند کے حصولِ کیلیے درخواست لکھیے۔
8۔ درض ذیل پیرا گراف کی تخلیص کیجیے ، مناسب عنوان بھی تجویز کیجیے۔
بیان کا علم ، یعنی بات کرنے کا سلیقہ اور مافی الضمیر کو زبان پر لانے کا قرینہ ہی اس حیوان ِ ناطق اور اشرف المخلوقات کی کی وہ صف ہے جس کی بنا پر اسے کائنات کی شہریاری کا حق حاصل ہے ۔ قوتِ بیان انسان کے احساسات و جذبات کے ابلاغ میں مدد گار ہوتی ہے، بیان کی یہ طاقت مکمل طور پر زبان سے جڑی ہوتی ہے اور زبان ہی وہ ذریعہ اظہار بنتی ہے جس کی بدولت یہ ابن ِ آدم معاملات زیست سے بنھانے کے قابل ٹھرتا ہے۔ اسی بنا پر سے دوسری تمام مخلوقات پر فوقیت حاصل ہے کہ یہ سلیقہ اظہار سے آشنا ہے۔